پریس ریلیز: آئی ایس ایس آئی میں “جموں و کشمیر میں ہندوستان کے غیر قانونی و یکطرفہ اقدام کے پانچ سال” پر سیمینار کا انعقاد

172

پریس ریلیز

آئی ایس ایس آئی میں “جموں و کشمیر میں ہندوستان کے غیر قانونی و یکطرفہ اقدام کے پانچ سال” پر
سیمینار کا انعقاد
 اگست 5 2024

انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کے انڈیا اسٹڈی سینٹر نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا، جس کا عنوان تھا “جموں و کشمیر میں ہندوستان کے غیر قانونی و یکطرفہ اقدام کے پانچ سال”۔ سیمینار کا مقصد جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 کو بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے پس منظر میں کشمیری عوام کی جدوجہد اور قربانیوں کو یاد کرنا تھا۔

انڈیا اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس نے تعارفی کلمات ادا کئے۔ مقررین میں سفیر سہیل محمود، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی؛ سفیر خالد محمود، چیئرمین آئی ایس ایس آئی؛ سفیر ممتاز زہرہ بلوچ، ترجمان و ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ پاکستان؛ ایران میں سابق پاکستانی سفیر رفعت مسعود؛ ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سی آئی ایس ایس آزاد جموں کشمیر؛ الطاف حسین وانی، چیئرمین کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز ؛ اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے مرکزی رہنما محمود ساغر شامل تھے۔

ڈاکٹر خرم عباس نے اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ بھارت نے پانچ سال قبل نہ صرف یکطرفہ طور پر جموں و کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کی بلکہ اب وہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کرکے ریاست کی آبادی کا ڈھانچہ بھی تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کشمیری عوام کی قربانیوں اور پاکستان کی سفارتی کوششوں نے مسئلہ کشمیر کو پوری طرح زندہ رکھا ہے۔ علمی و ادبی محاذوں پر مزید تحرک اور عالمی برادری تک موثر رسائی کی ضرورت کے پیش نظر انہوں نے اعلان کیا کہ آئی ایس ایس آئی کا انڈیا اسٹڈی سینٹر مسئلہ کشمیر کی مختلف جہتوں پر کام کرنے والے طلباء، محققین اور اہل علم کی سہولت کے لیے کشمیر ریسورس سینٹر قائم کرے گا۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی سفیر سہیل محمود نے کہا کہ آج کا دن 5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے بعد سے بھارت، پاکستان، کشمیریوں اور عالمی برادری کے کردار کا جائزہ لینے کا مناسب ترین موقع ہے۔ ہندوستان نے یہ 5 سال بے لگام جبر، دھوکہ دہی، ہیرا پھیری اور غلط بیانی سے کام چلایا ہے۔ اس وقت جموں و کشمیر میں قابض افواج کی موجودگی دنیا کے دیگر کسی بھی خطے سے زیادہ ہے۔ بی جے پی حکومت نے دنیا کو یہ فریب دیا ہے کہ وادی میں  زندگی اور  ترقی کا سفر معمول کی جانب لوٹ رہا ہے۔ سفیر سہیل محمود نے مزید کہا کہ ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی مقبوضہ جموں و کشمیر سے آگے بڑھ چکی ہے۔ ہندوستان کے ریاستی ایجنٹ پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں ماورائے عدالت قتل میں ملوث پائے گئے ہیں۔ سہیل محمود نے اس امر پر اہلِ کشمیر کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے بھارت کے وحشیانہ اور غیر انسانی قبضے کے خلاف حق خودارادیت کے لیے اپنی عظیم جدوجہد کا ایک اور ناقابل فراموش باب رقم کیا ہے۔ طویل کرفیو، معلومات اور خبروں تک عدم رسائی، من مانی گرفتاریوں، طاقت کے اندھا دھند استعمال، حراستی قتل و تشدد، بھاری معاشی نقصانات، نفسیاتی صدمے اور تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی کے باوجود بھارت کشمیری عوام کے عزم کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

مقرر نے کشمیری عوام کے منصفانہ مقصد کے لیے پاکستان کی جانب سے مستقل حمایت اور تنازعات کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے عالمی برادری کو متحرک کرنے کے لیے وسیع سفارتی کوششوں کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد میں ان کی ہر ممکن حمایت کے لیے پرعزم ہے۔ ایک تاریخی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ، یہ پاکستان کے لیے ایک اخلاقی اور تزویراتی ضرورت بھی ہے۔

بین الاقوامی برادری جموں و کشمیر میں جنم لیتے المیے کو نظر انداز کرکے عالمی امن دباؤ پر نہیں لگا سکتی۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین سے سبق حاصل کرنے اور جموں و کشمیر کے تنازعہ کو بروقت حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا مشورہ دیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ کشمیریوں کو انصاف فراہم کیے بغیر جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر ایمانداری سے عمل درآمد ناگزیر ہے۔

ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ نے جموں و کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات اور ان کے وادی میں انسانی حقوق کی مسلسل بگڑتی صورت حال پر اثرات پر ایک فلسفیانہ نکتہ نظر پیش کیا۔ انہوں نے خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے سے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کی صورتحال پر اثرات کا جائزہ لیا۔

الطاف حسین وانی نے اپنی گفتگو میں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں نوجوانوں کے کردار کے ماضی و حال پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان محققین اور اہل فن کو غیر روایتی، پرامن ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے حوصلہ افزائی اور عملی تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے آزاد کشمیر اور پاکستان کے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ وادی کے نوجوانوں کی بہادرانہ کوششوں کو اجاگر کرنے کے لیے مسلسل کام کریں۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما محمود ساغر نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے کشمیری قیادت اور عوام کے اٹوٹ جذبے اور عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کشمیری تنازعہ کے حل کے طور پر ایل او سی کو مستقل سرحد میں تبدیل کرنے کی کسی تجویز کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔

سفیر رفعت مسعود نے سفارتی محاذ پر پاکستان کی کوششوں پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ ایک مستحکم اور خوشحال پاکستان مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ کشمیریوں کے ناقابل تنسیخ حقوق کے حصول کے لیے نوجوان نسل سمیت تمام طبقات کو سنجیدہ کام کرنا چاہیے۔

مہمان خصوصی سفیر ممتاز زہرہ بلوچ نے اپنے خطاب میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے بھارتی اقدامات کا مقصد مقبوضہ علاقے پر بھارتی گرفت کو مزید مستحکم کرنا تھا جسے کشمیریوں نے اپنی بے مثال مزاحمت سے عملی طور پر بے اثر کر دیا ہے۔ مزید برآں، متنازعہ علاقے میں آبادیاتی حقائق کو تبدیل کرنے کے لیے بھارت کی مہم نئی دہلی کی ہٹ دھرمی اور بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظر انداز کرنے کا ایک اور مظہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مطالبہ ہے کہ نتیجہ خیز مذاکرات اور کسی بھی تعمیری امن عمل کے لیے ضروری ہے کہ بھارت 5 اگست 2019 سے پہلے اور اس سے پہلے اٹھائے گئے تمام غیر قانونی اقدامات واپس لے؛ علاقے میں آبادیاتی حقائق میں تبدیلی فوری طور پر بند کی جائے؛ فوجی دستوں کا انخلا کیا جائے؛ سیاسی قیدی رہا کیے جائیں؛ مواصلاتی راستے بحال کیے جائیں؛ جنسی تشدد روکا جائے؛ اور اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق، او آئی سی اور انسانی حقوق کی تمام تنظیموں کو مقبوضہ جموں و کشمیر تک فوری رسائی فراہم کی جائے۔

سیمینار کا اختتام سفیر خالد محمود کے ریمارکس کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے تاریخی تناظر پر روشنی ڈالی اور بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں اس کے قانونی پہلوؤں کا تذکرہ کیا۔