پریس ریلیز-انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیزاور لائٹ اسٹون پبلشرز کے زیر اہتمام 9ویں “پاکستان ادب فیسٹیول” کا انعقاد

164

پریس ریلیز
انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیزاور لائٹ اسٹون پبلشرز کے زیر اہتمام 9ویں “پاکستان ادب فیسٹیول” کا انعقاد

انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد اور معروف اشاعتی ادارے لائٹ اسٹون پبلشرز نے مشترکہ طور پر 9ویں پاکستان ادب فیسٹیول کا اہتمام کیا۔ انسٹی ٹیوٹ میں منعقدہ اس ایک روزہ فیسٹیول میں مختلف موضوعات پر لکھی جانے والی کتب کے حوالےسے خصوصی تعارفی سیشنز کے ساتھ ساتھ اہم عالمی سیاسی، سماجی اور ادبی موضوعات پر مبنی گفتگو کےدلچسپ پروگرامات رکھے گئے۔مقررین میں معروف مصنفین، ادبی شخصیات، دانشوروں، شعراء،سفارت کار اور صحافی خواتین و حضرات شامل تھے۔ صوفیانہ کلام اور دھمال پر مبنی ایک خصوصی پروگرام بھی فیسٹیول کا حصہ تھا۔ شائقین اور حاضرین کے لیےکتابوں اور رنگارنگ کھانوں، علاقائی پکوانوں، اور مشروبات کے اسٹالز بھی سجائے گئے تھے۔
فیسٹیول کے افتتاحی سیشن میں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل ایمبیسڈر سہیل محمود، لائٹ اسٹون پبلشرز کی مینجنگ ڈائریکٹر امینہ سید، اور اکادمی ادبیات پاکستان کی سربراہ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے خطاب کیا۔ اپنے خیرمقدمی کلمات میں ایمبیسڈر سہیل محمود نے کہا کہ خارجہ امور سے متعلق تحقیقی فرائض انجام دینے والے ایک ادارے کی جانب سے ایک ادبی میلے کے انعقاد میں شراکت اس بات کا اظہار ہے کہ انفرادی و اجتماعی زندگی کاکوئی شعبہ روزمرہ فطرت کے لطیف اور جمالیاتی پہلووٴں سے غیر متعلق ہو کر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس خطے کی وسیع ادبی روایت، متنوع ثقافت، کلاسیکی موسیقی، تصوف اور لوک حکایات کا خزانہ دراصل پاکستان کی وہ “سافٹ پاور” ہے جس کی بنیادیں خطے کی تہذیبی روایت میں پیوست ہیں اور گزشتہ سات دہائیوں میں اسے ناقابل یقین عروج ملا ہے۔ایمبیسڈر سہیل محمود نے کہا کہ ایسے ادبی پروگرامات یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم قومی و عالمی سیاست کے تلخ حقائق اور پالیسی امور سے متعلقہ لگے بندھے مباحث میں سے وقت نکال کر سماجی نشیب و فراز پر اجتماعی غور و فکر کریں اور کتاب شناسی اور ثقافتی پروگرامزکے ذریعے آگے بڑھنے کی نئی راہیں تلاش کریں۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اپنے دائرہ کار اور دلچسپیوں کو مزید وسعت دیتے ہوئے پالیسی سازی اور تحقیقی عمل کو جدید حالات وتقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا کام جاری رکھے گا۔
فیسٹیول کی شریک میزبان امینہ سید نے شرکائے مجلس کو بتایا کہ 2010ء میں انہوں نے پاکستان ادب فیسٹیول کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ کراچی اور لاہور میں کامیابی کی منزلیں طے کرنے کے بعد پہلی بار اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے۔ امینہ سید کا کہنا تھا کہ کتاب دوستی اور کتاب شناسی کے اس اچھوتے سلسلے کو ملک بھر میں پذیرائی ملی ہے اور اب گوادر، گھوٹکی اور مظفرآباد جیسے چھوٹے شہروں میں بھی ادبی میلے منعقد ہو رہے ہیں۔انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیزکی قیادت اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا جس کے بھرپور تعاون سے 9ویں ادب فیسٹیول کا انعقاد یقینی بنایا جا سکا۔
اکادمی ادبیات کی سربراہ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے دونوں میزبان اداروں کو خصوصی مبارک باد دیتے ہوئے اس کاوش کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ادب زندگی کی ٹھوس حقیقتوں سے روشناس کرواتا ہے۔ موجودہ دور کے مشینی طرز زندگی میں ادب اور کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے کیونکہ اس کی مدد سے انسانیت کا جوہر اجاگر کرنے اور معاشرے کو جمالیاتی، روحانی اور اخلاقی طور پر بہتر سمت دینے میں مدد ملتی ہے۔
اگلے سیشن میں Jinnah: A Life نامی کتاب کے مصنف بیرسٹر یاسر لطیف ہمدانی اور قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر الہان نیاز نے “جناح ویژن فار پاکستان: اے کال فار ایکشن” کے موضوع پر گفتگو کی۔ یاسر لطیف ہمدانی کا کہنا تھا کہ قائداعظم کا ویژن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک جمہوری،ترقی پسنداور فلاحی ریاست کے قیام کا تھا۔ وہ مسلم جدیدیت(Muslim Modernism) کی بنیاد پر ایک ایسی ریاست تشکیل دینا چاہتے تھے جس میں کوئی طبقہ مذہبی، نسلی،اور علاقائی بنیاد پر بالادست نہ ہو بلکہ اختیارات کی تقسیم جدید جمہوری تقاضوں اور مساوی شراکت کے اصول پر کی جائے۔ پاکستان کے مسائل کی بنیادی وجہ قائداعظم کی شخصیت،نظریات، سیاسی و سماجی نکتہ نظر، اور پاکستان سے متعلق ان کے خیالات کے حوالے سے پھیلائے گئے وہ گمراہ کن مفروضے اور غلط فہمیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم اب تک ملک کی آئینی و سماجی شناخت کے بارے میں مخمصے کا شکار ہیں۔
تیسرا سیشن معروف مصنف اور کالم نگار زاہد حسین کی کتاب A Dialogue with History کے مباحث پر گفتگو کے لیے مختص تھا۔ یہ کتاب ریاستی سربراہان، ملکی و غیرملکی سیاسی رہنماوٴں، سماجی شخصیات اور انسانی حقوق کے نامور وکلا کے انٹرویوز کا مجموعہ ہے جو زاہد حسین نے اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے دوران لیے۔ شرکائے گفتگو میں معروف سفارت کار ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور کالم نگار عارفہ نور شامل تھیں جبکہ ڈاکٹر سلمیٰ ملک نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ یہ کتاب پڑھتے ہوئے قاری کو تین چیزیں نمایاں نظر آتی ہیں: اول، وہ سبق جو ہم نے اپنی قومی و اجتماعی زندگی میں نہ سیکھے، چنانچہ ہمیں آج بھی اسی نوعیت کے مسائل درپیش ہیں جو 1980 کی دہائی میں تھے؛ دوم، امن، ترقی اور خوشحالی کے وہ مواقع جو ہم نے ضائع کر دیئے؛ اور سوم، تاریخ کی مثبت اور منفی تشکیل میں شخصیات کا انفرادی کردار۔ عارفہ نور کے مطابق اس کتاب کی ایک اہم رہنمائی یہ ہے کہ صحافیوں کا کام صرف بریکنگ نیوز اور حالات حاضرہ کی دوڑ میں لگ کر سیاستدانوں کا پیچھا کرتے رہنا نہیں ہے۔ان کا اصل کام مختلف شعبہ ہائے زندگی کی نامور شخصیات سے ملاقات و گفتگو کے ذریعے سوالات کے جواب ڈھونڈنا اور متعلقہ مسائل کا ادراک کرتے ہوئے انہیں قارئین و ناظرین تک پہنچانا ہے۔ تاہم موجودہ دور کی ہیجان خیز رپورٹنگ نے صحافیوں اور کالم نویسوں کو اس ذمہ داری سے غافل کر دیا ہے۔
ملک میں تعلیم کی صورت حال، مسائل اور امکانات و مواقع کے حوالے سے سیشن میں شرکائے گفتگو سابق بیورو کریٹ شکیل درانی، اور ماہرین تعلیم عظمیٰ یوسف، حسن خان، اور ڈاکٹر احتشام انور شامل تھے، جبکہ میزبانی کی ذمہ داری مشرف زیدی نے ادا کی۔ مقررین نے تعلیم کے میدان میں درپیش ہمہ جہت مسائل اور چیلنجز کی نشان دہی کی جس میں بدانتظامی، ریاستی ترجیحات، وسائل کا فقدان، سیاسی وابستگیاں اور مفادات، پالیسیوں اور منصوبوں میں عدم استحکام، انتظامی اور سیاسی قیادت کے مابین کشمکش، عوامی عدم دلچسپی، خواتین کی تعلیم پر غیراعلانیہ پابندیاں، اساتذہ کی تربیت کے موثر نظام کی عدم موجودگی، اور معاشی مسائل سرِفہرست ہیں۔ شرکاء نے زور دیا کہ شرحِ خواندگی بہتر بنانے اور لڑکیوں کی تعلیم یقینی بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات ضروری ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر تربیتِ اساتذہ کی لائسنسنگ کا معیاری نظام وضع کیا جائے، اور ملکی قیادت سیاسی اختلافات پسِ پشت ڈال کر تعلیمی ایمرجنسی اور اس ضمن میں کیے جانے والے اقدامات میں تسلسل یقینی بنائے۔
اگلا سیشن بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں پاکستان کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی،درپیش مسائل اور دستیاب امکانات سے متعلق تھا۔ ڈسکشن پینل میں سینیٹر مشاہد حسین سید، صحافی اور مصنفہ نسیم زہرہ، اور سابق سفارت کار ایمبیسڈر مسعود خان شامل تھے، جبکہ پینل کے میزبان عمیر عزیز سید تھے۔ شرکائے گفتگو اس بات پر متفق تھے کہ امریکہ و مغرب کی بالادستی پر مبنی عالمی نظام زوال کی جانب گامزن ہے، دنیا یک قطبی نظام سے کثیرقطبی نظام میں داخل ہونے کو ہے، اور نئے نظام میں ایشیائی طاقتیں، بالخصوص چین کی حیثیت ناقابلِ انکار ہو گی۔ پاکستان اپنی منفرد جغرافیائی پوزیشن، آبادی، ایٹمی قوت وعسکری طاقت اور مسلم دنیا میں اپنی اہمیت کی بنا پر عالمی طاقتوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندرونی سیاسی و معاشی مسائل پر قابو پائے، اور خارجہ پالیسی میں اپنے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے بڑی عالمی طاقتوں کے مابین توازن برقرار رکھے۔
پنجابی شاعرہ، مصورہ، مترجم، اور افسانہ نگار ثروت محی الدین نے “سپت سندھو(دریائے سندھ کی تہذیب)، تصوف، اور لوک روایت” کے موضوع پر منعقدہ سیشن میں گفتگو کی۔ گفتگو کے میزبان طارق بھٹی تھے۔لوک روایت کی تعریف ، تاریخ، شعری روایت، اور رسوم و رواج میں لوک روایات کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر خطے کی روایات وہاں کی زمین اور موسمی تغیر سے جڑی ہوتی ہیں۔دنیا میں موجود عدم برداشت اور قتل و غارت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی روایات، ثقافت، تہذیب، اور مذہبی تنوع سے ناآشنا ہیں، اس لیے وہ ہر ایک کو اپنے جیسا دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ باہمی شناسائی اور دوسروں کو ان کی روایات کے ساتھ رہنے کی گنجائش دینے کے نتیجے میں دنیا امن سے بہرہ ور ہو سکتی ہے۔ ہمارے خطے کے تصوف اور صوفی شاعری نے فارسی، عربی،اور ویدک اثرات کو قبول کیاجس کے نتیجے میں اس خطے کے صوفیا اور شعری روایت میں زیادہ وسعت، تنوع اور برداشت نظر آتی ہے۔تصوف کا سب سے اہم پیغام برابری، مساوات اور برداشت ہے۔
ادب فیسٹیول کا آخری پروگرام ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی کتاب Delivering Welfare at Scale: Ehsaas 2047 کی رونمائی کا تھا۔ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے گزشتہ دور حکومت میں اپنی سربراہی میں لانچ کیے جانے والے “احساس پروگرام” کی کہانی بیان کی جس کا مقصد ملک کے پس ماندہ طبقات، بالخصوص خواتین کو سماجی تحفظ اور معاشی بہبود فراہم کرنا تھا۔ انہوں نے اس پروگرام کے تحت مستحق افراد اور خاندانوں کے لیے متعارف کروائی گئی معاشی امداد، تعلیمی وظائف، صحت کی سہولیات، کھانے اور پناہ گاہوں کی فراہمی اور دیگر منصوبوں کی تفصیل بتائی ۔ احساس پروگرام کی منصوبہ بندی اور نفاذ میں سامنے آنے والے سیاسی، سماجی، اور پالیسی سے متعلقہ مسائل اور چینلجز کا بھی ذکر کیا گیا۔